تحریر: رشید زیب
1. ذخائر اور ان کے علاقے و جغرافیائی ساخت
سندھ میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر تھرپارکر (تھر) کے صحرائی علاقے میں ہیں، جہاں قریبًا 9,500 مربع کلومیٹر میں پھیلے تھر کول فیلڈ میں 175.506 ارب ٹن کوئلے کے تخمینہ ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ لکھڑا کوئلہ فیلڈ (نزدیکِ حیدرآباد) میں 1.328 ارب ٹن اور سندہ/جھمپرک (سونڈا–جھمپرک) کوئلہ فیلڈ میں 7.112 ارب ٹن ذخائر پائے جاتے ہیں۔ دیگر چھوٹے ذخائر میں متنگ جھمپیر (0.161 ارب ٹن) اور بدین (0.061 ارب ٹن) شامل ہیں۔ یہ ذخائر بنیادی طور پر ریتیلی زمینوں اور ضلغ نما سطح پر واقع ہیں۔ مثلاً تھر کول فیلڈ کی زمین میں قدیم “بارا” تہہ ہے جس میں کوئلہ ہوتا ہے، اور اس کے اوپر ریت اور دیگر تلچھٹ کی تہیں موجود ہیں۔ لکھڑا فیلڈ میں کوئلہ رینککوٹ تہہ کے اندر پایا جاتا ہے جس میں اوسطاً 1.1 میٹر موٹی کوئلے کی پرت ہے۔ سندھ کے بیشتر ذخائر میں کوئلے کی تہیں سطح سے چند دسی میٹر سے چند سو میٹر گہرائی میں پھیلی ہیں۔
2. ذخائر کا مجموعی تخمینہ اور ملکی ذخائر میں حصہ
سندھ کے ذخائر کی کل مقدار تقریباً 184 ارب ٹن ہے، جو پاکستان کے کل کوئلے کے ذخائر کا بیشتر حصہ ہیں۔ تحقیق کے مطابق پاکستان میں کل کوئلے کے ذخائر لگ بھگ 185 ارب ٹن ہیں، جن میں سندھ کے حصے کے 184,123 ملین ٹن (تقریباً 184 ارب ٹن) کے ساتھ پنجاب اور بلوچستان کے ذخائر اس کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس طرح تھر اور سندھ کے دیگر ذخائر پاکستان کے کل ذخائر کا تقریبًا سب سے بڑا حصّہ فراہم کرتے ہیں۔ تھر کول کا ذخیرہ (175.5 ارب ٹن) دنیا کے بڑے لو کواحل کے ذخائر میں بھی شمار ہوتا ہے۔
3. کوئلے کی اقسام اور ان کی خصوصیات
سندھ میں پائے جانے والا کوئلہ بنیادی طور پر کم درجہ کا (لگنائٹ اور ذیلی بٹومینیس) ہے۔ مثلاً تھر کول کا کوئلہ A سے B گریڈ کا لگنائٹ ہے، جس میں نمی اور راکھ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور حرارتی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے (مثلاً ثابت کاربن صرف 16.7% جبکہ نمی 46.8% تک)۔ لکھڑا فیلڈ کا کوئلہ لگنائٹ سے ذیلی بٹومینیس تک ہوتا ہے، جبکہ سندہ/جھمپرک (سونڈا) میں تھوڑا بہتر (A سے C گریڈ) کوئلہ ملتا ہے۔ مجموعی طور پر سندھ کا کوئلہ کم گرمائش اور زیادہ راکھ والا ہے، اس میں کم سلفر ہوتا ہے، لیکن نمی اور راکھ کی مقدار کی وجہ سے اس کی توانائی کی قیمت تیل یا گیس سے کم ہوتی ہے۔ مثلاً ایک تجزیے کے مطابق تھر کول میں سلفر 0.9–1.2% اور کاربن 16.7% پایا گیا ہے۔ ان خصوصیات کی بنیاد پر سندھ کا کوئلہ کم قیمت پر مقامی توانائی فراہم کرتا ہے، لیکن اس میں صاف کرنے اور جلانے کے جدید انتظامات درکار ہوتے ہیں۔
4. روزانہ پیداوار اور قومی پیداوار میں حصہ
سندھ خصوصاً تھر کے ذخائر سے نکالا جانے والا کوئلہ ملکی پیداوار کا بڑے حصّے میں ہوتا ہے۔ سندھ اینگرو کوئلہ کمپنی (SECMC) تھر بلاک II سے کھنیجنے والی پیداوار سال 2023 کے لیے 7.6 ملین ٹن تھی، جس کا مطلب روزانہ تقریبًا 20,800 ٹن کوئلہ ہے، اور 2024 کے لیے ہدف بڑھ کر 11.5 ملین ٹن (روزانہ ~31,500 ٹن) طے پایا ہے۔ سندھ کے دیگر میدانی ذخائر (لکھڑا وغیرہ) سے پیداوار ان کے مقابلے میں بہت کم ہے، لہٰذا سندھ سے نکلنے والا کوئلہ ملک کی مقامی پیداوار کا اکثریتی حصہ بناتا ہے۔ چونکہ پاکستان کا زیادہ تر مقامی کوئلہ سندھ سے ہی نکلتا ہے، اس لیے اس کی پیداوار ملکی کوئلے کی کل پیداوار میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
5. کوئلہ نکالنے والی کمپنیاں اور پیداواری طریقے
سندھ میں کان کنی کرنے والی نمایاں کمپنیوں میں سندھ اینگرو کوئلہ مائننگ کمپنی (SECMC)، سندھ کاربن انرجی لمیٹڈ (تھل نووا)، سینو سندھ ریسورسز، اور سندھ لکھڑا کول مائننگ کمپنی شامل ہیں۔ SECMC تھر بلاک II میں کام کرتی ہے اور دنیا کی پہلی کھلی کان (اوپن-پٹ) لگنائٹ کان ہے۔ اس کے اوزاروں میں بڑی بالٹی والی کھدائی مشینیں، ڈریگ لائن اور ٹرک وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ کاربن انرجی (تھل نووا) اور شنگھائی الیکٹرک کی ملکیت کمپنی بلاک VI اور I میں بھی بڑی اوپن-پٹ کانیں چلا رہی ہیں۔ لکھڑا کول فیلڈ سے نکلنے کے لیے بھی کھلی کان پٹی کان کنی کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ان کمپنیوں میں فرق صرف مالکانہ ڈھانچے اور تکنیکی تفصیلات کا ہے؛ مثلاً بلاک V میں زیر زمین کوئلہ گیس سازی (UCG) کے ذریعے توانائی حاصل کرنے کا تجرباتی منصوبہ ہے، جب کہ دوسرے بلاکس میں روایتی کھلی کان مائننگ ہوتی ہے۔ عمومی طور پر سندھ کی کان کنی کھلی کان اور اوپن پٹ کے جدید طریقوں سے ہوتی ہے، جس میں زیر زمین پانی نکال کر سطح کے کوئلے تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔
6. گزشتہ پانچ سالوں میں پیداوار کے رجحانات
گزشتہ پانچ سالوں (تقریباً 2019–2024) میں سندھ بالخصوص تھر کول کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2019 میں SECMC نے تجارتی پیداوار شروع کی، اور دسمبر 2021 تک اس نے مجموعی طور پر 10 ملین ٹن پیداوار کا سنگ میل عبور کیا۔ اسی دوران پورے ملک کی کوئلے کی پیداوار 2019 میں 6.06 ملین ٹن سے بڑھ کر 2020 میں 7.74 ملین ٹن (28% اضافہ) ہو گئی۔ 2022 اور 2023 میں نئے پاور پلانٹس کے لیے کان کنی تیز ہوئی، جس سے سندھ کی کل پیداواری صلاحیت کئی ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ بنیادی وجوہات میں تھر کے بڑے منصوبوں کا عملی ہونا، مقامی کوئلے کو ترجیح دینا، اور توانائی کی قلت کا حل تلاش کرنا شامل ہیں۔ ان عوامل کی وجہ سے مقامی کوئلے پر زور دیا گیا، جس سے سندھ کی پیداوار میں نمآئندہ اضافہ ہوا۔
7. مقامی روزگار اور معاشی مواقع
تھرپارکر میں کان کنی منصوبوں نے مقامی عوام کے لیے ہزاروں روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ سندھ اینگرو (SECMC) کی ایک مقامی بھرتی مہم خوشحال تھر کے تحت مقامی باشندوں کو ترجیح دی گئی، جس سے تقریبًا 28,000 ملازمتیں دستیاب ہوئیں، جن میں سے 17,080 (تقریبًا 61٪) مقامی لوگوں کو ملیں۔ صرف تھر بلاک II کے منصوبوں سے ہی 17,080 سے زائد مقامی افراد کو براہ راست روزگار ملا ہے۔ اس کے علاوہ لکھڑا اور دیگر چھوٹے کانوں نے بھی مقامی مزدوروں کو ملازمت دی ہے۔ کان کنی کے منصوبوں کے گرد مقامی معیشت میں دیگر شعبوں (چھوٹے کاروبار، ٹرانسپورٹ وغیرہ) کو بھی فائدہ پہنچا، جس سے علاقے میں معاشی سرگرمی بڑھی ہے۔ حکومت اور کمپنیوں کی جانب سے مقامی فنی تربیت اور کاروباری مراعات بھی دی گئی ہیں تاکہ پسماندہ علاقوں میں معیشت بہتر ہو۔
8. کوئلے کی رائلٹی اور ترقیاتی اخراجات
سندھ کے کوئلے سے رائلٹی سندھ حکومت کے لیے اہم ریونیو کا ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر، سندھ اینگرو (SECMC) نے قیام سے اب تک سندھی حکومت کو 12 ارب روپے سے زائد رائلٹی جمع کروائی ہے۔ حکومت اس آمدنی کو عام ترقیاتی فنڈز میں شامل کرتی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے سندھ حکومت نے تھر اور دیگر علاقوں میں انفراسٹرکچر اور معاشرتی خدمات پر خرچ کیا ہے۔ حکومت نے متاثرہ برادریوں کے لیے معاوضے اور تعلیم، صحت، پانی کی فراہمی کے منصوبوں میں یہ رقم استعمال کی ہے۔ مثال کے طور پر Thar Foundation کے تحت اس رائلٹی سے 23 اسکول، 5 صحت مراکز اور 17 پانی صاف کرنے کے پلانٹ قائم کیے گئے ہیں جو ہزاروں مقامی لوگوں (بشمول 5,000 طالبات/طالب علموں) کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں، پلوں اور پائپ لائنوں کی تعمیر جیسے ترقیاتی کام بھی اس آمدنی سے ممکن ہوئے ہیں۔
9. صحت، تعلیم، صاف پانی اور انفراسٹرکچر میں بہتری
تھر کے کوئلے کے منصوبوں سے متعلق علاقوں میں معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات میں بھی بہتری آئی ہے۔ تھر فاؤنڈیشن کے ذریعے قائم کیے گئے اسکولوں میں تقریباً 5,000 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں (جن میں تیس فیصد طالبات شامل ہیں)۔ صحت کے شعبے میں پانچ ہیل्थ سینٹرز قائم ہوئے ہیں جن سے 60,000 سے زائد مقامی افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ صاف پانی کی فراہمی کے لیے 17 ریورس آسموسس پلانٹ قائم کیے گئے ہیں جو بہت سے دیہاتیوں کو صاف پانی مہیا کرتے ہیں۔ مزید برآں، کوئلے کی کان کنی اور بجلی کے منصوبوں کے لیے برقی اور پائپ لائن انفراسٹرکچر کی توسیع کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر نہر نبیسار–اسلامکوٹ واٹر اسکیم زیر تعمیر ہے۔ مجموعی طور پر کان کنی سے متاثرہ علاقوں میں صحت، تعلیم اور پانی کے بنیادی ڈھانچے میں خاطرخواہ بہتری آئی ہے۔
10. ماحولیاتی چیلنجز
سندھ میں کوئلے کی کان کنی سے پانی کی قلت اور آلودگی، فضائی آلودگی، اور حیاتیاتی تنوع کو خطرات لاحق ہیں۔ تھر سمیت کوئلے والے علاقوں میں زیر زمین پانی نکالنے (ڈی واٹرنگ) کے باعث پانی کی سطح نیچے جارہی ہے، جبکہ کان کنی کے پانی میں بھاری دھاتیں ملاوٹ کا باعث بن رہی ہیں۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق تھر بلاک II کے پینے کے پانی کے تمام نمونے مضر جرثوموں اور سیلینیم، آرسینک، مرکری، کرومیم اور لیڈ جیسی زہریلی دھاتوں سے آلودہ پائے گئے ہیں، جو صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ کان کی کھدائی سے نکلنے والا پانی زیر زمین آبی ذخائر کو آلودہ کر سکتا ہے۔ فضائی آلودگی کے ضمن میں کوئلے کا احتراق کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر آکسائیڈ خارج کرتا ہے، جس سے ماحول میں آلودگی بڑھتی ہے۔ کوئلے کی راکھ (ایش) میں بھی کئی زہریلے مادے ہوتے ہیں جن کے ذرات فضا میں اڑتے ہیں اور سانس کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ سلفر آکسائیڈ سے پیدا ہونے والی تیزابیت کے باعث جھیلیں اور جنگلات متاثر ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر کان کنی سے علاقائی ماحول کا توازن بگڑ رہا ہے، حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات متاثر ہو رہی ہے۔
11. ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات
ماحولیاتی خدشات کے مدنظر سندھ حکومت اور کوئلہ کمپنیوں نے کچھ حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر مقامی پانی صاف کرنے کے لیے حکومتی اور نجی شعبے نے چند RO پلانٹس نصب کیے ہیں، اگرچہ ان کی کارکردگی اکثر مشکوک رہتی ہے۔ سندھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (SEPA) نے کان کنی اور پاور پلانٹس کے لیے ماحولیاتی اثرات کے جائزے (EIA) اور فضائی پانی کے معیار کے نگرانی کے قواعد وضع کیے ہیں، لیکن آزاد حلقوں کا کہنا ہے کہ نفاذ میں شفافیت اور عملدرآمد کمزور ہے۔ کمپنیاں خود بھی رسد کے نظام (effluent treatment) قائم کر رہی ہیں اور کم راکھ والے آلات استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کراچی کے 660 میگاواٹ لکی الیکٹرک پلانٹ میں GE کے جدید الٹرا-سپرکریٹیکل بائلر لگائے گئے ہیں جو تھر لگنائٹ کو نسبتاً کم آلودگی اور زیادہ کارکردگی سے جلاتے ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق ان اقدامات کی مؤثریت بڑھانے کے لیے مزید جامع نگرانی اور جدید ٹیکنالوجی درکار ہے۔
12. توانائی بحران میں کردار
سندھ کے کوئلے کی دولت پاکستان کے توانائی بحران کے حل میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان میں بارہا 5,000–6,000 میگاواٹ تک بوجھ کم رہنے کی صورتیں سامنے آچکی ہیں، اور تھر کا مقامی کوئلہ اس خلا کو پُر کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ تھر کے ذخائر سے نکالی جانے والی بجلی سستی اور مقامی ہونے کی وجہ سے ملکی توانائی کی طلب پورا کرتی ہے اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرتی ہے۔ مقامی کوئلہ جلانے سے سستی بجلی پیدا ہوتی ہے (مثلاً تھر کا لگنائٹ جلانے والی بجلی کی قیمت تقریبًا 14.19 روپے فی یونٹ ہے جو درآمدی کوئلے سے کم ہے) اور اس سے ملک کو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہوتی ہے۔ سندھ کے دو بڑے تھر منصوبے (شنگھائی اور سندھ اینگرو کے 1,320+1,320 میگاواٹ پلانٹس) قومی گرڈ کو 2,640 میگاواٹ فراہم کر رہے ہیں، جو توانائی کے بحران میں کافی اضافہ ہے۔ اس طرح سندھ کا کوئلہ پاکستان کو توانائی میں مستقل مزاجی اور خود انحصاری کی طرف لے جارہا ہے۔
13. تھر منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی کی اہمیت
تھر کول بلاک II میں واقع دو بڑے پاور پلانٹس (انگرو پاور کا 660 میگاواٹ اور ہبکو کا 330 میگاواٹ) کل تقریبًا 990 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ منصوبے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت مکمل ہوئے اور 2019ء کے بعد عملی ہوچکے ہیں، جس سے قومی گرڈ میں قابلِ قدر اضافی صلاحیت شامل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ تھر بلاک I میں شنگھائی پاور کمپنی کے دو 660 میگاواٹ یونٹس (کل 1,320 میگاواٹ) ہیں جو 2022-23 میں آن لائن آئے۔ اس طرح تھر کے کل پاور پلانٹس سے جاری صلاحیت 2,640 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بجلی پیداواری منصوبے ملک میں لوڈ شیڈنگ کم کرنے اور توانائی کے موثر استعمال میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
14. درآمدی بل میں کمی اور معیشت پر اثرات
مقامی کوئلے کے استعمال سے توانائی کے لیے درآمدی لائق تیل، گیس اور دوسرے ایندھن کی طلب میں کمی آتی ہے جس سے ملکی زرمبادلہ کی بچت ہوتی ہے۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں کوئلے کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں؛ مثال کے طور پر پچھلے ایک سال میں صرف کوئلے کی درآمدات میں تقریباً 467 ملین امریکی ڈالر کا زرمبادلہ استعمال ہوا۔ سندھ کے مقامی کوئلے پر پیدا ہونے والی بجلی نے اس خرچ کو کم کر کے ملکی معیشت کو تقویت دی ہے۔ کل لاگت کم ہو کر بجلی سستی ہوئی ہے (ملکی کوئلے پر فی یونٹ لاگت 14.19 روپے رہی جبکہ درآمدی کوئلے پر 20.02 روپے فی یونٹ)۔ نتیجتاً توانائی کے مہنگے درآمدی بل میں کمی آئی، بیرونی قرضوں پر انحصار گھٹا اور صنعتوں میں ارخص توانائی نے مثبت نشوونما کو بڑھایا ہے۔
15. آئندہ منصوبے اور معاشی فوائد
آئندہ چند برسوں میں سندھ کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار میں مزید اضافہ منصوبہ بند ہے۔ Sindh Engro کی منصوبہ بندی کے مطابق تھر پارکر بلاک II میں مزید یونٹس لگائے جائیں گے تاکہ کل جنریشن صلاحیت تقریبًا 3,960 میگاواٹ تک پہنچ سکے۔ علاوہ ازیں تھر بلاک I میں 1,320 میگاواٹ کی صلاحیت پر کام مکمل ہو چکا ہے اور بلاک VI (تھل نووا) میں 300 میگاواٹ کے اضافی یونٹس زیر غور ہیں۔ ان تمام منصوبوں سے سالانہ اربوں روپے کی بچت ممکن ہو گی کیونکہ درآمدی ایندھن کی طلب کم ہو جائے گی۔ مزید برآں، بڑھتی بجلی کی فراہمی سے صنعتی اور تجارتی شعبے کو مستحکم توانائی ملے گی، جس سے معاشی ترقی کو تقویت ملے گی۔ نئے منصوبوں سے مقامی سرمایہ کاری بڑھے گی اور ہزاروں ملازمتیں پیدا ہوں گی، جس کے نتیجے میں سندھ اور ملک کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
16. نئے ذخائر اور جاری سروے
سندھ میں مزید کوئلے کے ذخائر دریافت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ تھر کے علاوہ سندہ اور ٹھٹھہ کے مختلف علاقوں میں جیولوجیکل سروے کیے گئے ہیں تاکہ ثانوی ذخائر کا اندازہ لگایا جا سکے۔ جی ایس پی اور توانائی محکمے نئی دریافت کے لیے زمینی اور فضائی سروے (جیسے سونار اور جیواپسی) کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ مستقبل میں ٹھٹھہ-سونڈا اور میٹنگ جھمپیر کے علاقوں میں مزید ذخائر سامنے آئیں۔ ان سرویز سے نئی کان کنی کی لیزیں اور منصوبے سامنے آسکتے ہیں۔ کلیدی بات یہ ہے کہ سندھ کے گرم ریتیلی صحرائی علاقوں میں تحقیقات نے مزید پوشیدہ ذخائر کے امکانات ظاہر کیے ہیں، اور حکومت تیل اور گیس کی طرح کوئلے کے بھی جدید سروے تک جا رہی ہے۔
17. جدید اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز
سندھ کے کوئلہ سیکٹر میں جدید اور صاف ٹیکنالوجیوں کو متعارف کروایا جا رہا ہے۔ مثلاً کراچی میں لکی الیکٹرک کا 660 میگاواٹ پلانٹ، جس میں GE کے الٹرا-سپرکریٹیکل بائلرز نصب ہیں، خاص طور پر تھر کے اعلی نمی والے کوئلے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کوئلے کو زیادہ مؤثر اور کم آلودگی کے ساتھ جلاتی ہے۔ اس کے علاوہ بلاک V میں زیر زمین کوئلہ گیس سازی (UCG) کا تجرباتی منصوبہ ہے جس سے کان کنی کے زمینی اثرات کم ہوں گے۔ کمپنیاں کوئلے کو جلانے سے قبل دھول اور دیگر آلودگیوں کو نکالنے کے لیے ماڈرن واشنگ پلانٹس اور ڈسٹ کولیکشن سیسٹمز بھی لگا رہی ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی صاف توانائی کے لیے ضابطے مضبوط کیے جا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر، ان جدید ٹیکنالوجیوں سے نہ صرف ماحول دوست طریقے سے توانائی پیدا ہوگی بلکہ کوئلہ سیکٹر میں پیداواری صلاحیت اور معیار دونوں بہتر ہوں گے۔