28 فروری 2025 کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان ایک انتہائی متنازع ملاقات ہوئی، جو بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اس اجلاس کا مقصد معدنیات کے تبادلے کے معاہدے پر تبادلہ خیال کرنا تھا، جو یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کی طرف پہلا قدم سمجھا جا رہا تھا۔
تاہم، بات چیت تیزی سے خراب ہو گئی، اور وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایک کھلی بحث میں بدل گئی۔ صدر ٹرمپ نے زیلنسکی پر "تیسری عالمی جنگ کے ساتھ جوا کھیلنے” کا الزام لگایا اور روس کے ساتھ تنازع میں یوکرین کے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی یوکرین کے صدر پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا۔
ملاقات بغیر کسی معاہدے پر دستخط کیے ختم ہو گئی، اور مشترکہ پریس کانفرنس منسوخ کر دی گئی۔
🔹 یورپی ممالک کی یوکرین کی حمایت
اس واقعے کے بعد یورپی رہنماؤں نے یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا، "یوکرین اکیلا نہیں ہے،” جبکہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے یوکرینی عوام کی بہادری کو سراہا اور روس کو جارح قرار دیا۔
🔹 روس کا مثبت ردعمل
روسی حکام نے اس کشیدگی کو اپنی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا۔ سابق روسی صدر دمتری میدویدیف نے ٹرمپ کے موقف کی تعریف کی، جبکہ کریملن کے ترجمانوں نے زیلنسکی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے امریکہ اور یوکرین کے تعلقات کو کمزور کر دیا ہے۔
🔹 معاشی اثرات
اس کشیدگی کی وجہ سے امریکی اسٹاک مارکیٹ میں مختصر مدت کے لیے مندی دیکھی گئی، تاہم جلد ہی مارکیٹ مستحکم ہو گئی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی بیان بازی زیادہ تر سیاسی تھی اور یہ کسی بڑی پالیسی تبدیلی کی نشاندہی نہیں کرتی۔
یوکرین کا داخلی ردعمل:
یوکرین میں صدر زیلنسکی کے سخت موقف کو عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ شہریوں اور مقامی رہنماؤں نے ان کے قومی مفادات کے دفاع کو سراہا، اگرچہ کچھ سیاستدانوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
بعد کے حالات:
اس ملاقات کے بعد، صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر زیلنسکی کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں "بغیر انتخابات کے آمر” قرار دیا اور یوکرین پر احسان فراموشی کا الزام لگایا۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو ریاض میں ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔
یہ تنازعہ نہ صرف امریکہ-یوکرین تعلقات میں تناؤ کا سبب بنا بلکہ روس کے لیے ایک سفارتی فتح بھی ثابت ہوا۔