کراچی: (سماج رپورٹ) سندھ کی اعلیٰ تعلیمی فضاؤں میں ارتعاش پیدا ہوگیا! گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے "سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹیٹیوٹ لاز ترمیمی بل 2025” کو سخت اعتراضات کے ساتھ سندھ اسمبلی واپس بھیج دیا۔ یہ اقدام ایک تعلیمی بحران کی گونج پیدا کر رہا ہے، جہاں بیوروکریسی اور تعلیمی قیادت کے درمیان ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
گورنر سندھ کا دوٹوک مؤقف:
گورنر سندھ نے واضح الفاظ میں کہا کہ "وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی ہدایات کے مطابق، یونیورسٹی کا وائس چانسلر ایک ماہرِ تعلیم ہونا لازمی ہے۔” انہوں نے اس اصول کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دیگر صوبے بھی انہی اصولوں پر عمل پیرا ہیں، تو سندھ میں استثنیٰ کیوں؟
کیا بیوروکریسی جامعات کی قیادت سنبھال سکتی ہے؟
کامران ٹیسوری نے اس سوال کا دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ "ایک پی ایچ ڈی اسکالر نہ صرف علمی قیادت اور تحقیق کی گہری سوجھ بوجھ رکھتا ہے، بلکہ انتظامی معاملات پر بھی مہارت رکھتا ہے۔ بیوروکریٹس، خواہ کتنے ہی تجربہ کار کیوں نہ ہوں، طلبہ، اساتذہ اور محققین کی علمی ضروریات کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔”
تعلیمی معیار پر ممکنہ اثرات!
گورنر سندھ نے خبردار کیا کہ اگر بیوروکریٹس کو جامعات کی سربراہی سونپ دی گئی تو اس سے نہ صرف تحقیق و تدریس متاثر ہوگی بلکہ جامعات میں تعلیمی معیار کی تنزلی کا بھی خطرہ ہے۔
سندھ حکومت کے لیے چیلنج!
گورنر نے دوٹوک الفاظ میں سندھ حکومت کو پیغام دیتے ہوئے کہا، "ترمیمی بل پر نظر ثانی کی جائے!” کیا سندھ حکومت ان اعتراضات کو خاطر میں لائے گی یا پھر یہ معاملہ مزید تنازعے کی نذر ہوگا؟ تعلیمی نظام کی سمت کا فیصلہ اب سندھ اسمبلی کے ہاتھ میں ہے!